سوزش غم کے سوا کاہش فرقت کے سوا
عشق میں کچھ بھی نہیں درد کی لذت کے سوا
دل میں اب کچھ بھی نہیں ان کی محبت کے سوا
سب فسانے ہیں حقیقت میں حقیقت کے سوا
کون کہہ سکتا ہے یہ اہل طریقت کے سوا
سارے جھگڑے ہیں جہاں میں تری نسبت کے سوا
کتنے چہروں نے مجھے دعوت جلوہ بخشی
کوئی صورت نہ ملی آپ کی صورت کے سوا
غم عقبیٰ غم دوراں غم ہستی کی قسم
اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا
بزم جاناں میں ارے ذوق فراواں اب تک
کچھ بھی حاصل نہ ہوا دیدۂ حیرت کے سوا
وہ شب ہجر وہ تاریک فضا وہ وحشت
کوئی غمخوار نہ تھا درد کی شدت کے سوا
محتسب آؤ چلیں آج تو مے خانے میں
ایک جنت ہے وہاں آپ کی جنت کے سوا
جو تہی دست بھی ہے اور تہی دامن بھی
وہ کہاں جائے گا تیرے در دولت کے سوا
جس نے قدرت کے ہر اقدام سے ٹکر لی ہے
وہ پشیماں نہ ہوا جبر مشیت کے سوا
مجھ سے یہ پوچھ رہے ہیں مرے احباب عزیزؔ
کیا ملا شہر سخن میں تمہیں شہرت کے سوا
غزل
سوزش غم کے سوا کاہش فرقت کے سوا
عزیز وارثی