EN हिंदी
کمال یہ ہے کہ دنیا کو کچھ پتہ نہ لگے | شیح شیری
kamal ye hai ki duniya ko kuchh pata na lage

غزل

کمال یہ ہے کہ دنیا کو کچھ پتہ نہ لگے

عزیز الرحمن شہید فتح پوری

;

کمال یہ ہے کہ دنیا کو کچھ پتہ نہ لگے
ہو التجا بھی کچھ ایسی کہ التجا نہ لگے

پرانی باتیں ہیں اب ان کا ذکر بھی چھوڑو
اگر کسی کو سناؤں تو اک فسانہ لگے

وہ ایک لمحہ تھا جس نے کیا مجھے بسمل
میں داستان بتاؤں تو اک زمانہ لگے

بسے ہیں جلوے کچھ ایسے نگاہ عاشق میں
جسے بھی دیکھے کوئی تجھ سے ماسوا نہ لگے

نہ جانے کون سی منزل پہ عشق آ پہونچا
دعا بھی کام نہ آئے کوئی دوا نہ لگے

فریب رہ کے بھی محرومیاں مقدر تھیں
نظر اٹھاؤں تو اس کو کہیں برا نہ لگے

یہ کائنات کی سچائی اب کہاں ڈھونڈوں
سہانی رات کا منظر ہو اور سہانا لگے

میں دور بیٹھا تھا صحرا میں اک امید لیے
اسے بتاؤں تو یہ سچ بھی اک بہانہ لگے

بنا لیا ہے اک آئینہ اپنے دل کو شہیدؔ
مجھے تو شہر میں اب کوئی بے وفا نہ لگے