مرے نصیب کا ہے یا ستارہ خواب کا ہے
سفر کے باب میں لیکن سہارا خواب کا ہے
ترے خیال کا صحرا عبور کرنے میں
ہے نفع درد کا لیکن خسارہ خواب کا ہے
جلے بجھے ہوئے خیمے کی راکھ میں جس کو
ستارے ڈھونڈتے ہیں وہ شرارہ خواب کا ہے
خدا کرے کہ کھلے ایک دن زمانے پر
مری کہانی میں جو استعارہ خواب کا ہے
برس رہا ہے زمین سخن پہ جو خورشیدؔ
کسی ملال کا یا ابر پارہ خواب کا ہے
غزل
مرے نصیب کا ہے یا ستارہ خواب کا ہے
خورشید ربانی