کسی بھی راہ پہ رکنا نہ فیصلہ کر کے
بچھڑ رہے ہو مری جان حوصلہ کر کے
میں انتظار کی حالت میں رہ نہیں سکتا
وہ انتہا بھی کرے آج ابتدا کر کے
تری جدائی کا منظر بیاں نہیں ہوگا
میں اپنا سایہ بھی رکھوں اگر جدا کر کے
مجھے تو بحر بلا خیز کی ضرورت تھی
سمٹ گیا ہوں میں دنیا کو راستہ کر کے
کسی خیال کا کوئی وجود ہو شاید
بدل رہا ہوں میں خوابوں کو تجربہ کر کے
کبھی نہ فیصلہ جلدی میں کیجیے ساحلؔ
بدل بھی سکتا ہے کافر وہ بد دعا کر کے
غزل
کسی بھی راہ پہ رکنا نہ فیصلہ کر کے
خالد ملک ساحلؔ