یوں دل و جان کی توقیر میں مصروف تھا میں
جیسے اجداد کی جاگیر میں مصروف تھا میں
تیشۂ وقت نے بنیاد ہلا دی ورنہ
ہر گھڑی ذات کی تعمیر میں مصروف تھا میں
خواب دیکھا تھا محبت کا محبت کی قسم
پھر اسی خواب کی تعبیر میں مصروف تھا میں
لفظ رنگوں میں نہائے ہوئے گھر میں آئے
تیری آواز کی تصویر میں مصروف تھا میں
ایک اک پل مری پلکوں میں سمٹ آیا ہے
عہد گم گشتہ کی تحریر میں مصروف تھا میں
اب ترے واسطے آباد کروں گا دنیا
ایک عرصہ تری تقدیر میں مصروف تھا میں
غزل
یوں دل و جان کی توقیر میں مصروف تھا میں
خالد ملک ساحلؔ