EN हिंदी
کب تک مہکے گی بے آس گلابوں میں | شیح شیری
kab tak mahkegi be-as gulabon mein

غزل

کب تک مہکے گی بے آس گلابوں میں

خاور اعجاز

;

کب تک مہکے گی بے آس گلابوں میں
مر جائے گی خوشبو بند کتابوں میں

کبھی درون ذات کے منظر تھے ان میں
کنکر ہی کنکر ہیں اب تالابوں میں

ہاتھ لگاتے ہی مٹی کا ڈھیر ہوئے
کیسے کیسے رنگ بھرے تھے خوابوں میں

گرتی جائے رشتوں کی مضبوط فصیل
نخلستان بدلتا جائے سرابوں میں

ذہنوں میں تشویش دلوں میں خوف بہت
ساری بستی ہے محصور عذابوں میں

آئی حسابوں میں جب دنیا کی تسخیر
اک لمحہ غائب تھا سبھی حسابوں میں