EN हिंदी
اشق شیاری | شیح شیری

اشق

422 شیر

عشق کو نغمۂ امید سنا دے آ کر
دل کی سوئی ہوئی قسمت کو جگا دے آ کر

اختر شیرانی




عشق اک ایسی حویلی ہے کہ جس سے باہر
کوئی دروازہ کھلے اور نہ دریچہ نکلے

اکرم نقاش




نفرت سے محبت کو سہارے بھی ملے ہیں
طوفان کے دامن میں کنارے بھی ملے ہیں

علی ظہیر لکھنوی




عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ

علامہ اقبال




ہوئی نہ عام جہاں میں کبھی حکومت عشق
سبب یہ ہے کہ محبت زمانہ ساز نہیں

علامہ اقبال




عشق بھی ہو حجاب میں حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر

علامہ اقبال




جب عشق سکھاتا ہے آداب خودآگاہی
کھلتے ہیں غلاموں پر اسرار شہنشاہی

علامہ اقبال