EN हिंदी
اشق شیاری | شیح شیری

اشق

422 شیر

ترے عشق کی انتہا چاہتا ہوں
مری سادگی دیکھ کیا چاہتا ہوں

علامہ اقبال




ہم نے اول سے پڑھی ہے یہ کتاب آخر تک
ہم سے پوچھے کوئی ہوتی ہے محبت کیسی

الطاف حسین حالی




عشق سنتے تھے جسے ہم وہ یہی ہے شاید
خود بخود دل میں ہے اک شخص سمایا جاتا

الطاف حسین حالی




تم کو ہزار شرم سہی مجھ کو لاکھ ضبط
الفت وہ راز ہے کہ چھپایا نہ جائے گا

الطاف حسین حالی




ٹپکے جو اشک ولولے شاداب ہو گئے
کتنے عجیب عشق کے آداب ہو گئے

الطاف مشہدی




ابھی آئے ابھی جاتے ہو جلدی کیا ہے دم لے لو
نہ چھوڑوں گا میں جیسی چاہے تم مجھ سے قسم لے لو

امیر مینائی




مانگ لوں تجھ سے تجھی کو کہ سبھی کچھ مل جائے
سو سوالوں سے یہی ایک سوال اچھا ہے

امیر مینائی