خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں
جو ناز ہو بھی تو بے لذت نیاز نہیں
نگاہ عشق دل زندہ کی تلاش میں ہے
شکار مردہ سزاوار شاہباز نہیں
مری نوا میں نہیں ہے ادائے محبوبی
کہ بانگ صور سرافیل دل نواز نہیں
سوال مے نہ کروں ساقی فرنگ سے میں
کہ یہ طریقۂ رندان پاکباز نہیں
ہوئی نہ عام جہاں میں کبھی حکومت عشق
سبب یہ ہے کہ محبت زمانہ ساز نہیں
اک اضطراب مسلسل غیاب ہو کہ حضور
میں خود کہوں تو مری داستاں دراز نہیں
اگر ہو ذوق تو خلوت میں پڑھ زبور عجم
فغان نیم شبی بے نوائے راز نہیں
غزل
خودی کی شوخی و تندی میں کبر و ناز نہیں
علامہ اقبال