EN हिंदी
اشق شیاری | شیح شیری

اشق

422 شیر

مرے مزار پہ آ کر دیے جلائے گا
وہ میرے بعد مری زندگی میں آئے گا

انجم خیالی




کس نے آباد کیا ہے مری ویرانی کو
عشق نے؟ عشق تو بیمار پڑا ہے مجھ میں

انجم سلیمی




اٹھائے پھرتا رہا میں بہت محبت کو
پھر ایک دن یوں ہی سوچا یہ کیا مصیبت ہے

انجم سلیمی




ان سے ہم لو لگائے بیٹھے ہیں
آگ دل میں دبائے بیٹھے ہیں

انور دہلوی




اس تعلق میں نہیں ممکن طلاق
یہ محبت ہے کوئی شادی نہیں

انور شعور




عشق تو ہر شخص کرتا ہے شعورؔ
تم نے اپنا حال یہ کیا کر لیا

انور شعور




صرف اس کے ہونٹ کاغذ پر بنا دیتا ہوں میں
خود بنا لیتی ہے ہونٹوں پر ہنسی اپنی جگہ

انور شعور