میں صرف وہ نہیں جو نظر آ گیا تجھے
مژدہ پھر اذن بار دگر آ گیا تجھے
صحرا میں جان دینے کے موقعے تو اب بھی ہیں
وہ کیا جنوں تھا لے کے جو گھر آ گیا تجھے
پہلے کبھی تو موت کو تجھ سے گلہ نہ تھا
جینے کا آج کیسے ہنر آ گیا تجھے
اس دور میں یہ فخر بھی کس کو نصیب ہے
چہرہ تو آئینہ میں نظر آ گیا تجھے
اس شہر میں تو کچھ نہیں رسوائی کے سوا
اے دلؔ یہ عشق لے کے کدھر آ گیا تجھے
غزل
میں صرف وہ نہیں جو نظر آ گیا تجھے
دل ایوبی