کوئی پھول سا ہاتھ کاندھے پہ تھا
مرے پاؤں شعلوں پہ جلتے رہے
بشیر بدر
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
یوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا
she would have had compulsions surely
faithless without cause no one can be
بشیر بدر
مہک رہی ہے زمیں چاندنی کے پھولوں سے
خدا کسی کی محبت پہ مسکرایا ہے
بشیر بدر
میں چاہتا ہوں کہ تم ہی مجھے اجازت دو
تمہاری طرح سے کوئی گلے لگائے مجھے
بشیر بدر
میں ہر حال میں مسکراتا رہوں گا
تمہاری محبت اگر ساتھ ہوگی
بشیر بدر
میں جب سو جاؤں ان آنکھوں پہ اپنے ہونٹ رکھ دینا
یقیں آ جائے گا پلکوں تلے بھی دل دھڑکتا ہے
بشیر بدر
میں نے دن رات خدا سے یہ دعا مانگی تھی
کوئی آہٹ نہ ہو در پر مرے جب تو آئے
بشیر بدر