اداسی آسماں ہے دل مرا کتنا اکیلا ہے
پرندہ شام کے پل پر بہت خاموش بیٹھا ہے
میں جب سو جاؤں ان آنکھوں پہ اپنے ہونٹ رکھ دینا
یقیں آ جائے گا پلکوں تلے بھی دل دھڑکتا ہے
تمہارے شہر کے سارے دئیے تو سو گئے کب کے
ہوا سے پوچھنا دہلیز پہ یہ کون جلتا ہے
اگر فرصت ملے پانی کی تحریروں کو پڑھ لینا
ہر اک دریا ہزاروں سال کا افسانہ لکھتا ہے
کبھی میں اپنے ہاتھوں کی لکیروں سے نہیں الجھا
مجھے معلوم ہے قسمت کا لکھا بھی بدلتا ہے
غزل
اداسی آسماں ہے دل مرا کتنا اکیلا ہے
بشیر بدر