ہم اپنا عشق چمکائیں تم اپنا حسن چمکاؤ
کہ حیراں دیکھ کر عالم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو
بہادر شاہ ظفر
ہو گیا جس دن سے اپنے دل پر اس کو اختیار
اختیار اپنا گیا بے اختیاری رہ گئی
بہادر شاہ ظفر
مرگ ہی صحت ہے اس کی مرگ ہی اس کا علاج
عشق کا بیمار کیا جانے دوا کیا چیز ہے
بہادر شاہ ظفر
اے عشق تو ہر چند مرا دشمن جاں ہو
مرنے کا نہیں نام کا میں اپنے بقاؔ ہوں
بقا اللہ بقاؔ
عشق میں بو ہے کبریائی کی
عاشقی جس نے کی خدائی کی
بقا اللہ بقاؔ
عشق نے منصب لکھے جس دن مری تقدیر میں
داغ کی نقدی ملی صحرا ملا جاگیر میں
بقا اللہ بقاؔ
خواہش سود تھی سودے میں محبت کے ولے
سر بسر اس میں زیاں تھا مجھے معلوم نہ تھا
بقا اللہ بقاؔ