EN हिंदी
اشق شیاری | شیح شیری

اشق

422 شیر

ہم اپنا عشق چمکائیں تم اپنا حسن چمکاؤ
کہ حیراں دیکھ کر عالم ہمیں بھی ہو تمہیں بھی ہو

بہادر شاہ ظفر




ہو گیا جس دن سے اپنے دل پر اس کو اختیار
اختیار اپنا گیا بے اختیاری رہ گئی

بہادر شاہ ظفر




مرگ ہی صحت ہے اس کی مرگ ہی اس کا علاج
عشق کا بیمار کیا جانے دوا کیا چیز ہے

بہادر شاہ ظفر




اے عشق تو ہر چند مرا دشمن جاں ہو
مرنے کا نہیں نام کا میں اپنے بقاؔ ہوں

بقا اللہ بقاؔ




عشق میں بو ہے کبریائی کی
عاشقی جس نے کی خدائی کی

بقا اللہ بقاؔ




عشق نے منصب لکھے جس دن مری تقدیر میں
داغ کی نقدی ملی صحرا ملا جاگیر میں

بقا اللہ بقاؔ




خواہش سود تھی سودے میں محبت کے ولے
سر بسر اس میں زیاں تھا مجھے معلوم نہ تھا

بقا اللہ بقاؔ