EN हिंदी
دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی | شیح شیری
dil mein ek lahr si uThi hai abhi

غزل

دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی

ناصر کاظمی

;

دل میں اک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی

کچھ تو نازک مزاج ہیں ہم بھی
اور یہ چوٹ بھی نئی ہے ابھی

شور برپا ہے خانۂ دل میں
کوئی دیوار سی گری ہے ابھی

بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی

تو شریک سخن نہیں ہے تو کیا
ہم سخن تیری خامشی ہے ابھی

یاد کے بے نشاں جزیروں سے
تیری آواز آ رہی ہے ابھی

شہر کی بے چراغ گلیوں میں
زندگی تجھ کو ڈھونڈتی ہے ابھی

سو گئے لوگ اس حویلی کے
ایک کھڑکی مگر کھلی ہے ابھی

تم تو یارو ابھی سے اٹھ بیٹھے
شہر میں رات جاگتی ہے ابھی

وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی