EN हिंदी
دل میں نہ ہو جرأت تو محبت نہیں ملتی | شیح شیری
dil mein na ho jurat to mohabbat nahin milti

غزل

دل میں نہ ہو جرأت تو محبت نہیں ملتی

ندا فاضلی

;

دل میں نہ ہو جرأت تو محبت نہیں ملتی
خیرات میں اتنی بڑی دولت نہیں ملتی

کچھ لوگ یوں ہی شہر میں ہم سے بھی خفا ہیں
ہر ایک سے اپنی بھی طبیعت نہیں ملتی

دیکھا ہے جسے میں نے کوئی اور تھا شاید
وہ کون تھا جس سے تری صورت نہیں ملتی

ہنستے ہوئے چہروں سے ہے بازار کی زینت
رونے کی یہاں ویسے بھی فرصت نہیں ملتی

نکلا کرو یہ شمع لیے گھر سے بھی باہر
کمرے میں سجانے کو مصیبت نہیں ملتی