EN हिंदी
دل شیاری | شیح شیری

دل

292 شیر

وہ بات ذرا سی جسے کہتے ہیں غم دل
سمجھانے میں اک عمر گزر جائے ہے پیارے

کلیم عاجز




ایک دل ہے کہ اجڑ جائے تو بستا ہی نہیں
ایک بت خانہ ہے اجڑے تو حرم ہوتا ہے

کمال احمد صدیقی




ہنگامۂ حیات سے جاں بر نہ ہو سکا
یہ دل عجیب دل ہے کہ پتھر نہ ہو سکا

خلیلؔ الرحمن اعظمی




عقل و دل اپنی اپنی کہیں جب خمارؔ
عقل کی سنیے دل کا کہا کیجئے

خمارؔ بارہ بنکوی




مجھے تو ان کی عبادت پہ رحم آتا ہے
جبیں کے ساتھ جو سجدے میں دل جھکا نہ سکے

خمارؔ بارہ بنکوی




روشنی کے لیے دل جلانا پڑا
کیسی ظلمت بڑھی تیرے جانے کے بعد

خمارؔ بارہ بنکوی




کسی خیال کسی خواب کے لیے خورشیدؔ
دیا دریچے میں رکھا تھا دل جلایا تھا

خورشید ربانی