ہنگامۂ حیات سے جاں بر نہ ہو سکا
یہ دل عجیب دل ہے کہ پتھر نہ ہو سکا
میرا لہو بھی پی کے نہ دنیا جواں ہوئی
قیمت مرے جنوں کی مرا سر نہ ہو سکا
تیری گلی سے چھٹ کے نہ جائے اماں ملی
اب کے تو میرا گھر بھی مرا گھر نہ ہو سکا
تیرے نہ ہو سکے تو کسی کے نہ ہو سکے
یہ کاروبار شوق مکرر نہ ہو سکا
یوں جی بہل گیا ہے تری یاد سے مگر
تیرا خیال تیرے برابر نہ ہو سکا
گزری جو شب تو بجھ گئے اپنے چراغ بھی
آئی سحر تو پھر کوئی رہبر نہ ہو سکا
غزل
ہنگامۂ حیات سے جاں بر نہ ہو سکا
خلیلؔ الرحمن اعظمی