میرا سر کب کسی دربار میں خم ہوتا ہے
کوچۂ یار میں لیکن یہ قدم ہوتا ہے
پرسش حال بھی اتنی کہ میں کچھ کہہ نہ سکوں
اس تکلف سے کرم ہو تو ستم ہوتا ہے
شیخ مے خانہ میں کرتا ہے ارم کی باتیں
اسی مے خانہ کا اک گوشہ ارم ہوتا ہے
ایک دل ہے کہ اجڑ جائے تو بستا ہی نہیں
ایک بت خانہ ہے اجڑے تو حرم ہوتا ہے
راہ بر راہ نوردی سے پریشاں ہے کمالؔ
جس طرف جائے مرا نقش قدم ہوتا ہے
غزل
میرا سر کب کسی دربار میں خم ہوتا ہے
کمال احمد صدیقی