وہ سوا یاد آئے بھلانے کے بعد
زندگی بڑھ گئی زہر کھانے کے بعد
دل سلگتا رہا آشیانے کے بعد
آگ ٹھنڈی ہوئی اک زمانے کے بعد
روشنی کے لیے دل جلانا پڑا
ایسی ظلمت بڑھی تیرے جانے کے بعد
جب نہ کچھ بن پڑا عرض غم کا جواب
وہ خفا ہو گئے مسکرانے کے بعد
دشمنوں سے پشیمان ہونا پڑا
دوستوں کا خلوص آزمانے کے بعد
رنج حد سے گزر کے خوشی بن گیا
ہو گئے پار ہم ڈوب جانے کے بعد
بخش دے یا رب اہل ہوس کو بہشت
مجھ کو کیا چاہئے تجھ کو پانے کے بعد
کیسے کیسے گلے یاد آئے خمارؔ
ان کے آنے سے قبل ان کے جانے کے بعد
غزل
وہ سوا یاد آئے بھلانے کے بعد
خمارؔ بارہ بنکوی