EN हिंदी
دل شیاری | شیح شیری

دل

292 شیر

کچھ کھٹکتا تو ہے پہلو میں مرے رہ رہ کر
اب خدا جانے تری یاد ہے یا دل میرا

جگر مراد آبادی




لاکھوں میں انتخاب کے قابل بنا دیا
جس دل کو تم نے دیکھ لیا دل بنا دیا

جگر مراد آبادی




محبت میں اک ایسا وقت بھی دل پر گزرتا ہے
کہ آنسو خشک ہو جاتے ہیں طغیانی نہیں جاتی

جگر مراد آبادی




آنے والی ہے کیا بلا سر پر
آج پھر دل میں درد ہے کم کم

جوشؔ ملسیانی




یا رہیں اس میں اپنے گھر کی طرح
یا مرے دل میں آپ گھر نہ کریں

جوشؔ ملسیانی




دھیان میں اس کے فنا ہو کر کوئی منہ دیکھ لے
دل وہ آئینہ نہیں جو ہر کوئی منہ دیکھ لے

جوشش عظیم آبادی




دل وحشی کو خواہش ہے تمہارے در پہ آنے کی
دوانا ہے ولیکن بات کرتا ہے ٹھکانے کی

جرأت قلندر بخش