کوئی دوا نہ دے سکے مشورۂ دعا دیا
چارہ گروں نے اور بھی درد دل کا بڑھا دیا
دونوں کو دے کے صورتیں ساتھ ہی آئنہ دیا
عشق بسورنے لگا حسن نے مسکرا دیا
ذوق نگاہ کے سوا شوق گناہ کے سوا
مجھ کو بتوں سے کیا ملا مجھ کو خدا نے کیا دیا
تھی نہ خزاں کی روک تھام دامن اختیار میں
ہم نے بھری بہار میں اپنا چمن لٹا دیا
حسن نظر کی آبرو صنعت برہمن سے ہے
جس کو صنم بنا لیا اس کو خدا بنا دیا
داغ ہے مجھ پہ عشق کا میرا گناہ بھی تو دیکھ
اس کی نگاہ بھی تو دیکھ جس نے یہ گل کھلا دیا
عشق کی مملکت میں ہے شورش عقل نامراد
ابھرا کہیں جو یہ فساد دل نے وہیں دبا دیا
نقش وفا تو میں ہی تھا اب مجھے ڈھونڈتے ہو کیا
حرف غلط نظر پڑا تم نے مجھے مٹا دیا
خبث دروں دکھا دیا ہر دہن غلیظ نے
کچھ نہ کہا حفیظؔ نے ہنس دیا مسکرا دیا
غزل
کوئی دوا نہ دے سکے مشورۂ دعا دیا
حفیظ جالندھری