عشق میں چھیڑ ہوئی دیدۂ تر سے پہلے
غم کے بادل جو اٹھے تو یہیں پر سے پہلے
اب جہنم میں لیے جاتی ہے دل کی گرمی
آگ چمکی تھی یہ اللہ کے گھر سے پہلے
ہاتھ رکھ رکھ کے وہ سینے پہ کسی کا کہنا
دل سے درد اٹھتا ہے پہلے کہ جگر سے پہلے
دل کو اب آنکھ کی منزل میں بٹھا رکھیں گے
عشق گزرے گا اسی راہ گزر سے پہلے
وہ ہر وعدے سے انکار بہ طرز اقرار
وہ ہر اک بات پہ ہاں لفظ مگر سے پہلے
میرے قصے پہ وہی روشنی ڈالے شاید
شمع کم مایہ جو بجھتی ہے سحر سے پہلے
چاک دامانی گل کا ہے گلہ کیا بلبل
کہ الجھتا ہے یہ خود باد سحر سے پہلے
کچھ سمجھ دار تو ہیں نعش اٹھانے والے
لے چلے ہیں مجھے اس راہ گزر سے پہلے
دل نہیں ہارتے یوں بازی الفت میں حفیظؔ
کھیل آغاز ہوا کرتا ہے سر سے پہلے
غزل
عشق میں چھیڑ ہوئی دیدۂ تر سے پہلے
حفیظ جالندھری