دل سے ترا خیال نہ جائے تو کیا کروں
میں کیا کروں کوئی نہ بتائے تو کیا کروں
امید دل نشیں سہی دنیا حسیں سہی
تیرے بغیر کچھ بھی نہ بھائے تو کیا کروں
دل کو خدا کی یاد تلے بھی دبا چکا
کم بخت پھر بھی چین نہ پائے تو کیا کروں
دن ہو کہ رات ایک ملاقات کی ہے بات
اتنی سی بات بھی نہ بن آئے تو کیا کروں
جو کچھ بنا دیا ہے ترے انتظار نے!
اب سوچتا ہوں تو ادھر آئے تو کیا کروں
دیدہ وران بت کدہ اک مشورہ تو دو
کعبہ جھلک یہاں بھی دکھائے تو کیا کروں
اپنی نفی تو فلسفی جی قتل نفس ہے
کہیے کوئی یہ جرم سجھائے تو کیا کروں
یہ ہائے ہائے مضحکہ انگیز ہے تو ہو
دل سے اٹھے زبان جلائے تو کیا کروں
میں کیا کروں میں کیا کروں گردان بن گئی
میں کیا کروں کوئی نہ بتائے تو کیا کروں
اخبار سے مری خبر مرگ اے حفیظؔ
میرا ہی دوست پڑھ کے سنائے تو کیا کروں
غزل
دل سے ترا خیال نہ جائے تو کیا کروں
حفیظ جالندھری