ترے فلک ہی سے ٹوٹنے والی روشنی کے ہیں عکس سارے
کہیں کہیں جو چمک رہے ہیں حروف میری عبارتوں میں
عتیق اللہ
تم نے تو فقط اس کی روایت ہی سنی ہے
ہم نے وہ زمانہ بھی گزرتے ہوئے دیکھا
عتیق اللہ
وہ بات تھی تو کئی دوسرے سبب بھی تھے
یہ بات ہے تو سبب دوسرا نہیں ہوگا
عتیق اللہ
وہ رات نیند کی دہلیز پر تمام ہوئی
ابھی تو خواب پہ اک اور خواب دھرنا تھا
عتیق اللہ
یہ دیکھا جائے وہ کتنے قریب آتا ہے
پھر اس کے بعد ہی انکار کر کے دیکھا جائے
عتیق اللہ
یہ راہ طلب یارو گمراہ بھی کرتی ہے
سامان اسی کا تھا جو بے سر و ساماں تھا
عتیق اللہ
ذرا سے رزق میں برکت بھی کتنی ہوتی تھی
اور اک چراغ سے کتنے چراغ جلتے تھے
عتیق اللہ

