بہت دنوں میں کہیں راستے بدلتے تھے
وہ لوگ کیسے تھے جو ساتھ ساتھ چلتے تھے
وہ کارگہ نہ رہی اور نہ وہ سفال رہی
خدا کے دور میں کیا آدمی نکلتے تھے
ذرا سے رزق میں برکت بھی کتنی ہوتی تھی
اور اک چراغ سے کتنے چراغ جلتے تھے
گزارنے کی وہ صورت قیام خواب میں تھی
جہاں سے اور کئی راستے نکلتے تھے
فلک پہ اپنا بسیرا تھا اور ہم اکثر
فلک کے آخری کونے پہ جا نکلتے تھے
غزل
بہت دنوں میں کہیں راستے بدلتے تھے
عتیق اللہ