وہ میرے نالے کا شور ہی تھا شب سیہ کی نہایتوں میں
میں ایک ذرہ عنایتوں پر میں ایک گردش کثافتوں میں
گرفت اور اس کی کر رہا ہوں جو آب ہے ان بصارتوں کی
کمند اور اس پہ پھینکتا ہوں جو تہ نشیں ہے سماعتوں میں
مرے لیے شہر کج میں رکھا ہی کیا ہے جو اپنے غم گنواؤں
وہ ایک داماں بہت ہے مجھ کو سکوت افزا فراغتوں میں
میں ایک شب کتنی راتیں جاگا وہ ماہ بیتے کہ سال گزرے
پہاڑ سا وقت کاٹتا ہوں شمار کرتا ہوں ساعتوں میں
ترے فلک ہی سے ٹوٹنے والی روشنی کے ہیں عکس سارے
کہیں کہیں جو چمک رہے ہیں حروف میری عبارتوں میں
وہ بوجھ سر پر اٹھا رکھا ہے کہ جسم و جاں تک ہیں چور جن سے
پچاس برسوں کی ذلتیں جو ہمیں ملی تھیں وراثتوں میں
غزل
وہ میرے نالے کا شور ہی تھا شب سیہ کی نہایتوں میں
عتیق اللہ