کچھ اور دن ابھی اس جا قیام کرنا تھا
یہاں چراغ وہاں پر ستارہ دھرنا تھا
وہ رات نیند کی دہلیز پر تمام ہوئی
ابھی تو خواب پہ اک اور خواب دھرنا تھا
اگر رسا میں نہ تھا وہ بھرا بھرا سا بدن
رگ خیال سے اس کو طلوع کرنا تھا
نگاہ اور چراغ اور یہ اثاثۂ جاں
تمام ہوتی ہوئی شب کے نام کرنا تھا
گریز ہوتا چلا جا رہا تھا مجھ سے وہ
اور ایک پل کے سرے پر مجھے ٹھہرنا تھا

غزل
کچھ اور دن ابھی اس جا قیام کرنا تھا
عتیق اللہ