EN हिंदी
کچھ اور دن ابھی اس جا قیام کرنا تھا | شیح شیری
kuchh aur din abhi is ja qayam karna tha

غزل

کچھ اور دن ابھی اس جا قیام کرنا تھا

عتیق اللہ

;

کچھ اور دن ابھی اس جا قیام کرنا تھا
یہاں چراغ وہاں پر ستارہ دھرنا تھا

وہ رات نیند کی دہلیز پر تمام ہوئی
ابھی تو خواب پہ اک اور خواب دھرنا تھا

اگر رسا میں نہ تھا وہ بھرا بھرا سا بدن
رگ خیال سے اس کو طلوع کرنا تھا

نگاہ اور چراغ اور یہ اثاثۂ جاں
تمام ہوتی ہوئی شب کے نام کرنا تھا

گریز ہوتا چلا جا رہا تھا مجھ سے وہ
اور ایک پل کے سرے پر مجھے ٹھہرنا تھا