EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہم زمیں کی طرف جب آئے تھے
آسمانوں میں رہ گیا تھا کچھ

عتیق اللہ




ہر منظر کے اندر بھی اک منظر ہے
دیکھنے والا بھی تو ہو تیار مجھے

عتیق اللہ




اس گلی سے اس گلی تک دوڑتا رہتا ہوں میں
رات اتنی ہی میسر ہے سفر اتنا ہی ہے

عتیق اللہ




کہاں پہنچ کے حدیں سب تمام ہوتی ہیں
اس آسمان سے نیچے اتر کے دیکھا جائے

عتیق اللہ




خوابوں کی کرچیاں مری مٹھی میں بھر نہ جائے
آئندہ لمحہ اب کے بھی یوں ہی گزر نہ جائے

عتیق اللہ




کس کے پیروں کے نقش ہیں مجھ میں
میرے اندر یہ کون چلتا ہے

عتیق اللہ




کسی اک زخم کے لب کھل گئے تھے
میں اتنی زور سے چیخا نہیں تھا

عتیق اللہ