کیا تم نے کبھی زندگی کرتے ہوئے دیکھا
میں نے تو اسے بارہا مرتے ہوئے دیکھا
پانی تھا مگر اپنے ہی دریا سے جدا تھا
چڑھتے ہوئے دیکھا نہ اترتے ہوئے دیکھا
تم نے تو فقط اس کی روایت ہی سنی ہے
ہم نے وہ زمانہ بھی گزرتے ہوئے دیکھا
یاد اس کے وہ گلنار سراپے نہیں آتے
اس زخم سے اس زخم کو بھرتے ہوئے دیکھا
اک دھند کہ رانوں میں پگھلتی ہوئی پائی
اک خواب کہ ذرے میں اترتے ہوئے دیکھا
باریک سی اک درز تھی اور اس سے گزر تھا
پھر دیکھنے والوں نے گزرتے ہوئے دیکھا

غزل
کیا تم نے کبھی زندگی کرتے ہوئے دیکھا
عتیق اللہ