فرار کے لیے جب راستہ نہیں ہوگا
تو باب خواب بھی کیا کوئی وا نہیں ہوگا
اک ایسے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھا جائے
جہاں کسی کو کوئی جانتا نہیں ہوگا
وہ بات تھی تو کئی دوسرے سبب بھی تھے
یہ بات ہے تو سبب دوسرا نہیں ہوگا
یوں اس نگاہ کو اپنی کشادہ رکھتے ہیں
کہ اس کے بعد کبھی دیکھنا نہیں ہوگا
جو تنگ ہوتے گئے قلب ہائے سینہ مقام
کوئی مقام مقام دعا نہیں ہوگا
کوئی زمین تو ہوگی تری زمینوں پر
ہمارے جیسا کوئی نقش پا نہیں ہوگا
غزل
فرار کے لیے جب راستہ نہیں ہوگا
عتیق اللہ