اس دشت نوردی میں جینا بہت آساں تھا
ہم چاک گریباں تھے سر پر کوئی داماں تھا
ہم سے بھی بہت پہلے آیا تھا یہاں کوئی
جب ہم نے قدم رکھا یہ خاک داں ویراں تھا
اڑتے ہوئے پھرتے تھے آوارہ غباروں سے
وہ وقت تھا جب اس کے لوٹ آنے کا امکاں تھا
یہ راہ طلب یارو گمراہ بھی کرتی ہے
سامان اسی کا تھا جو بے سر و ساماں تھا

غزل
اس دشت نوردی میں جینا بہت آساں تھا
عتیق اللہ