EN हिंदी
بہت دن سے تمہیں دیکھا نہیں تھا | شیح شیری
bahut din se tumhein dekha nahin tha

غزل

بہت دن سے تمہیں دیکھا نہیں تھا

عتیق اللہ

;

بہت دن سے تمہیں دیکھا نہیں تھا
بدن اتنا کبھی سونا نہیں تھا

وہ کیسی شب تھی جو کالی نہیں تھی
وہ کیسا دن تھا جو اجلا نہیں تھا

یہ ویرانہ نہ تھا ویران اتنا
یہ صحرا اس قدر صحرا نہیں تھا

وہ سب کچھ سوچنا اب پڑ رہا ہے
ترے بارے میں جو سوچا نہیں تھا

کسی اک زخم کے لب کھل گئے تھے
میں اتنی زور سے چیخا نہیں تھا

مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں ہے
بہت دن ہو گئے رویا نہیں تھا

کئی اطراف کھلتے جا رہے ہیں
وہ دشمن تھا مگر اتنا نہیں تھا