دے کر پچھلی یادوں کا انبار مجھے
پھینک دیا ہے سات سمندر پار مجھے
ہر منظر کے اندر بھی اک منظر ہے
دیکھنے والا بھی تو ہو تیار مجھے
تیری کمی گر مجھ سے پوری ہوتی ہے
لے آئیں گے لوگ سر بازار مجھے
ساری چیزیں غیر مناسب لگتی ہیں
ہاتھ میں دے دی جائے اک تلوار مجھے
اینٹیں جانے کب حرکت میں آ جائیں
جانے کس دن چن لے یہ دیوار مجھے
ایک مسلسل چوٹ سی لگتی رہتی ہے
سامنا خود اپنا ہے ہر ہر بار مجھے
غزل
دے کر پچھلی یادوں کا انبار مجھے
عتیق اللہ