EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

سورج لحاف اوڑھ کے سویا تمام رات
سردی سے اک پرندہ دریچے میں مر گیا

اطہر ناسک




یہیں کہیں پہ عدو نے پڑاؤ ڈالا تھا
یہیں کہیں پہ محبت نے ہار مانی تھی

اطہر ناسک




یقین برسوں کا امکان کچھ دنوں کا ہوں
میں تیرے شہر میں مہمان کچھ دنوں کا ہوں

اطہر ناسک




گرتی ہوئی دیوار کا سایہ تھا ترا ساتھ
پھر بھی تری باہوں سے جدا تھے تو ہمیں تھے

اطہر راز




ہم گردش گرداب الم سے نہیں ڈرتے
طوفاں ہے اگر آج کنارہ بھی تو ہوگا

اطہر راز




یوں تصور میں دبے پاؤں تری یاد آئی
جس طرح شام کی بانہوں میں ستارے آئے

اطہر راز




یہ بھی اچھا ہے کہ صحرا میں بنایا ہے مکاں
اب کرائے پہ یہاں سایۂ دیوار چلا

اطہر شاہ خان جیدی