وہ جو صرف نگاہ کرتا ہے
اس تماشے کا ایک حصہ ہے
اک اندھیرا ہوں سر سے پاؤں تک
پھر یہ پہلو میں کیا چمکتا ہے
ایک دن ان کو زندہ دیکھا تھا
جن بزرگوں کا یہ اثاثہ ہے
شہر ماتم کی اس بلا سے نہ ڈر
آئینہ بھی طلسم رکھتا ہے
کس کے پیروں کے نقش ہیں مجھ میں
میرے اندر یہ کون چلتا ہے
نقش ہے کون آسمانوں میں
ان زمینوں میں کس کا چہرہ ہے
میں نے بنجر دنوں میں کھولی ہے آنکھ
میں نے پیڑوں کو مرتے دیکھا ہے
غزل
وہ جو صرف نگاہ کرتا ہے
عتیق اللہ