کیسۂ درویش میں جو بھی ہے زر اتنا ہی ہے
اور دیکھا جائے تو مجھ کو خطر اتنا ہی ہے
پاؤں رکھنے کے لیے کوئی جگہ تو چاہیئے
شہر کے اس باب میں میرا گزر اتنا ہی ہے
میں جہاں پہنچا نہیں ایسے بھی ویرانے بتا
دوست اپنا رشتۂ دیوار و در اتنا ہی ہے
ایک مشت خاک یہ اور وہ ہوائے تند و تیز
اور ترا احسان میری ذات پر اتنا ہی ہے
اس گلی سے اس گلی تک دوڑتا رہتا ہوں میں
رات اتنی ہی میسر ہے سفر اتنا ہی ہے
غزل
کیسۂ درویش میں جو بھی ہے زر اتنا ہی ہے
عتیق اللہ