EN हिंदी
کیسۂ درویش میں جو بھی ہے زر اتنا ہی ہے | شیح شیری
kisa-e-darwesh mein jo bhi hai zar utna hi hai

غزل

کیسۂ درویش میں جو بھی ہے زر اتنا ہی ہے

عتیق اللہ

;

کیسۂ درویش میں جو بھی ہے زر اتنا ہی ہے
اور دیکھا جائے تو مجھ کو خطر اتنا ہی ہے

پاؤں رکھنے کے لیے کوئی جگہ تو چاہیئے
شہر کے اس باب میں میرا گزر اتنا ہی ہے

میں جہاں پہنچا نہیں ایسے بھی ویرانے بتا
دوست اپنا رشتۂ دیوار و در اتنا ہی ہے

ایک مشت خاک یہ اور وہ ہوائے تند و تیز
اور ترا احسان میری ذات پر اتنا ہی ہے

اس گلی سے اس گلی تک دوڑتا رہتا ہوں میں
رات اتنی ہی میسر ہے سفر اتنا ہی ہے