خوابوں کی کرچیاں مری مٹھی میں بھر نہ جائے
آئندہ لمحہ اب کے بھی یوں ہی گزر نہ جائے
رسی لٹک رہی ہے گلے کو نہ بھینچ لے
خنجر چمک رہا ہے بدن میں اتر نہ جائے
منہ پھاڑتی ہیں گھر کی دراڑیں ادھر ادھر
اک قہقہہ کہ جیسے فضا میں بکھر نہ جائے
کیوں اس کے ساتھ ہی نہ رہا جائے چند روز
جو آدمی کہ رات میں بھی اپنے گھر نہ جائے
کیا جانے بات کیا ہے کہ رکتا نہیں کوئی
کب سے پکارتا ہوں کہ کوئی ادھر نہ جائے
کیسے پھر اپنے آپ کو زندہ کہوں گا میں
اک اور شخص مجھ میں ہے شامل وہ مر نہ جائے
جس کو کہ عرف عام میں کہتے ہیں زندگی
یہ نشہ اپنے وقت سے پہلے اتر نہ جائے
غزل
خوابوں کی کرچیاں مری مٹھی میں بھر نہ جائے
عتیق اللہ