گھر ہمارا پھونک کر کل اک پڑوسی اے عتیقؔ
دو گھڑی تو ہنس لیا پھر بعد میں رویا بہت
عتیق الہ آبادی
ہونٹوں پر اک بار سجا کر اپنے ہونٹ
اس کے بعد نہ باتیں کرنا سو جانا
عتیق الہ آبادی
میں نے پوچھا یہ بتا مجھ سے بچھڑنے کا تجھے
کچھ قلق ہوتا ہے کیا اس نے کہا تھوڑا بہت
عتیق الہ آبادی
نوازتا تھا ہمیشہ وہ غم کی دولت سے
اور اس خزانے سے میں مالا مال ہو ہی گیا
عتیق الہ آبادی
اشک پلکوں پے بچھڑ کر اپنی قیمت کھو گیا
یہ ستارہ قیمتی تھا جب تلک ٹوٹا نہ تھا
عتیق انظر
بچھڑتے وقت انا درمیان تھی ورنہ
منانا دونوں نے اک دوسرے کو چاہا تھا
عتیق انظر
دور مجھ سے رہتے ہیں سارے غم زمانے کے
تیری یاد کی خوشبو دل میں جب ٹھہرتی ہے
عتیق انظر

