گزشتہ رات کوئی چاند گھر میں اترا تھا
وہ ایک خواب تھا یا بس نظر کا دھوکا تھا
ستارے اوس مرے ساتھ صبح تک روئے
مگر وہ شخص تو پتھر کا جیسے ترشا تھا
بچھڑتے وقت انا درمیان تھی ورنہ
منانا دونوں نے اک دوسرے کو چاہا تھا
قریب آ کے بھی خوابوں کی کھو گئیں کرنیں
کہ مجھ سے آگے مرا بد نصیب سایہ تھا
گلہ نہیں ہے جو اس نے مجھے نہ پہچانا
لہو لہان مری زندگی کا چہرہ تھا
نگل سکا نہ شب غم کا اژدہا مجھ کو
افق پہ وقت سحر آفتاب ابھرا تھا
حسین چاند کے چہرے پہ پڑ گئے دھبے
کہ میرے دل کے اندھیرے سے یہ بھی گزرا تھا
غزل
گزشتہ رات کوئی چاند گھر میں اترا تھا
عتیق انظر