گاؤں کے پرندے تم کو کیا پتا بدیسوں میں
رات ہم اکیلوں کی کس طرح گزرتی ہے
عتیق انظر
غم کی بند مٹھی میں ریت سا مرا جیون
جب ذرا کسی مٹھی زندگی بکھرتی ہے
عتیق انظر
اک اس کی ذات سے جب میرا اعتبار اٹھا
تو پھر کسی پہ بھی آیا نہ اعتبار مجھے
عتیق انظر
کہیں بجھتی ہے دل کی پیاس اک دو گھونٹ سے انظرؔ
میں سورج ہوں مرے حصے میں دریا لکھ دیا جائے
عتیق انظر
کسی نے بھیجا ہے خط پیار اور وفا لکھ کر
قلم سے کام دیا ہے مجھے خدا لکھ کر
عتیق انظر
میں تم سے ترک تعلق کی بات کیوں سوچوں
جدا نہ جسموں سے انظرؔ کبھی بھی سائے ہوئے
عتیق انظر
شام کے دھندلکوں میں ڈوبتا ہے یوں سورج
جیسے آرزو کوئی میرے دل میں مرتی ہے
عتیق انظر

