جسم کے گھروندے میں آگ شور کرتی ہے
دل میں جب محبت کی چاندنی اترتی ہے
شام کے دھندلکوں میں ڈوبتا ہے یوں سورج
جیسے آرزو کوئی میرے دل میں مرتی ہے
دن میں ایک ملتی ہے اور دوسری شب میں
دھوپ جب بچھڑتی ہے چاندنی سنورتی ہے
باغباں نے روکا یا لے گیا اسے بادل
بات کیا ہوئی خوشبو اتنی دیر کرتی ہے
غم کی بند مٹھی میں ریت سا مرا جیون
جب ذرا کسی مٹھی زندگی بکھرتی ہے
گاؤں کے پرند تم کو کیا پتا بدیسوں میں
رات ہم اکیلوں کی کس طرح گزرتی ہے
دور مجھ سے رہتے ہیں سارے غم زمانے کے
تیری یاد کی خوشبو دل میں جب ٹھہرتی ہے
غزل
جسم کے گھروندے میں آگ شور کرتی ہے
عتیق انظر