چند لمحوں کو سہی تھا ساتھ میں رہنا بہت
ایک بس تیرے نہ ہونے سے ہے سناٹا بہت
ضبط کا سورج بھی آخر شام کو ڈھل ہی گیا
غم کا بادل بن کے آنسو رات بھر برسا بہت
دشمنوں کو کوئی بھی موقع نہ ملنے پائے گا
دوستوں نے ہی مرے بارے میں ہے لکھا بہت
میں کھرا اترا نہیں تیرے تقاضے پر کبھی
زندگی اے زندگی تجھ سے ہوں شرمندہ بہت
بس انا کے بوجھ نے نظریں مری اٹھنے نہ دیں
اس کی جانب دیکھنے کو جی مرا چاہا بہت
میں نے پوچھا یہ بتا مجھ سے بچھڑنے کا تجھے
کچھ قلق ہوتا ہے کیا اس نے کہا تھوڑا بہت
گھر ہمارا پھونک کر کل اک پڑوسی اے عتیقؔ
دو گھڑی تو ہنس لیا پھر بعد میں رویا بہت
غزل
چند لمحوں کو سہی تھا ساتھ میں رہنا بہت
عتیق الہ آبادی