EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

تمہاری بزم سے جب بھی اٹھے تو حال زدہ
کبھی جواب کے مارے کبھی سوال زدہ

عطا الرحمن جمیل




ان کو بھی جمیلؔ اپنے مقدر سے گلہ ہے
وہ لوگ جو سنتے تھے کہ چالاک بہت ہیں

عطا الرحمن جمیل




یہ دنیا ہے یہاں ہر آبگینہ ٹوٹ جاتا ہے
کہیں چھپتے پھرو آخر زمانہ ڈھونڈھ ہی لے گا

عطا الرحمن جمیل




بکھر بکھر گیا اک موج رائیگاں کی طرح
کسی کی جیت کا نشہ کسی کی مات کے ساتھ

عطاالرحمٰن قاضی




کشش کچھ ایسی تھی مٹی کی باس میں ہم لوگ
قضا کا دام بچھا تھا مگر چلے آئے

عطاالرحمٰن قاضی




عتیقؔ بجھتا بھی کیسے چراغ دل میرا
لگی تھی اس کی حفاظت میں ساری رات ہوا

عتیق الہ آبادی




دیو پری کے قصے سن کر
بھوکے بچے سو لیتے ہیں

عتیق الہ آبادی