EN हिंदी
جدائی حد سے بڑھی تو وصال ہو ہی گیا | شیح شیری
judai had se baDhi to visal ho hi gaya

غزل

جدائی حد سے بڑھی تو وصال ہو ہی گیا

عتیق الہ آبادی

;

جدائی حد سے بڑھی تو وصال ہو ہی گیا
چلو وہ آج مرا ہم خیال ہو ہی گیا

نوازتا تھا ہمیشہ وہ غم کی دولت سے
اور اس خزانے سے میں مالا مال ہو ہی گیا

میں آدمی ہوں تو ہمت نہ ٹوٹتی کیسے
غموں کے بوجھ سے آخر نڈھال ہو ہی گیا

یہ اور بات کہ وہ آدمی نہ بن پایا
مگر زمانے کی خاطر مثال ہو ہی گیا

وہ آفتاب کہ دن میں عروج تھا جس کا
ہوئی جو شام تو اس کا زوال ہو ہی گیا

میں کاروبار جہاں میں الجھ گیا اتنا
کہ خود سے ملنا بھی اب تو محال ہو ہی گیا