جدائی حد سے بڑھی تو وصال ہو ہی گیا
چلو وہ آج مرا ہم خیال ہو ہی گیا
نوازتا تھا ہمیشہ وہ غم کی دولت سے
اور اس خزانے سے میں مالا مال ہو ہی گیا
میں آدمی ہوں تو ہمت نہ ٹوٹتی کیسے
غموں کے بوجھ سے آخر نڈھال ہو ہی گیا
یہ اور بات کہ وہ آدمی نہ بن پایا
مگر زمانے کی خاطر مثال ہو ہی گیا
وہ آفتاب کہ دن میں عروج تھا جس کا
ہوئی جو شام تو اس کا زوال ہو ہی گیا
میں کاروبار جہاں میں الجھ گیا اتنا
کہ خود سے ملنا بھی اب تو محال ہو ہی گیا
غزل
جدائی حد سے بڑھی تو وصال ہو ہی گیا
عتیق الہ آبادی