EN हिंदी
جس کی خاطر میں نے دنیا کی طرف دیکھا نہ تھا | شیح شیری
jis ki KHatir maine duniya ki taraf dekha na tha

غزل

جس کی خاطر میں نے دنیا کی طرف دیکھا نہ تھا

عتیق انظر

;

جس کی خاطر میں نے دنیا کی طرف دیکھا نہ تھا
وہ مجھے یوں چھوڑ جائے گا کبھی سوچا نہ تھا

اس کے آنسو ہی بتاتے تھے نہ اب لوٹے گا وہ
اس سے پہلے تو بچھڑتے وقت یوں روتا نہ تھا

رہ گیا تنہا میں اپنے دوستوں کی بھیڑ میں
اور ہمدم وہ بنا جس سے کوئی رشتہ نہ تھا

قہقہوں کی دھوپ میں بیٹھے تھے میرے ساتھ سب
آنسوؤں کی بارشوں میں پر کوئی بھیگا نہ تھا

اشک پلکوں پے بچھڑ کر اپنی قیمت کھو گیا
یہ ستارہ قیمتی تھا جب تلک ٹوٹا نہ تھا

مرمریں گنبد پہ رکتی تھی ہر اک پیاسی نظر
پر کسی نے مقبرے میں غم چھپا دیکھا نہ تھا