EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

کوئی دیوار سلامت ہے نہ اب چھت میری
خانۂ خستہ کی صورت ہوئی حالت میری

اسلم آزاد




میں نے اپنی خواہشوں کا قتل خود ہی کر دیا
ہاتھ خون آلود ہیں ان کو ابھی دھویا نہیں

اسلم آزاد




نہ دشت و در سے الگ تھا نہ جنگلوں سے جدا
وہ اپنے شہر میں رہتا تھا پھر بھی تنہا تھا

اسلم آزاد




پھینکا تھا کس نے سنگ ہوس رات خواب میں
پھر ڈھونڈھتی ہے نیند اسی پچھلے پہر کو

اسلم آزاد




راستہ سنسان تھا تو مڑ کے دیکھا کیوں نہیں
مجھ کو تنہا دیکھ کر اس نے پکارا کیوں نہیں

اسلم آزاد




سلسلہ رونے کا صدیوں سے چلا آتا ہے
کوئی آنسو مری پلکوں پہ ٹھہرتا ہی نہیں

اسلم آزاد




ہم بھی اسلمؔ اسی گمان میں ہیں
ہم نے بھی کوئی زندگی جی تھی

اسلم عمادی