کوئی دیوار سلامت ہے نہ اب چھت میری
خانۂ خستہ کی صورت ہوئی حالت میری
اسلم آزاد
میں نے اپنی خواہشوں کا قتل خود ہی کر دیا
ہاتھ خون آلود ہیں ان کو ابھی دھویا نہیں
اسلم آزاد
نہ دشت و در سے الگ تھا نہ جنگلوں سے جدا
وہ اپنے شہر میں رہتا تھا پھر بھی تنہا تھا
اسلم آزاد
پھینکا تھا کس نے سنگ ہوس رات خواب میں
پھر ڈھونڈھتی ہے نیند اسی پچھلے پہر کو
اسلم آزاد
راستہ سنسان تھا تو مڑ کے دیکھا کیوں نہیں
مجھ کو تنہا دیکھ کر اس نے پکارا کیوں نہیں
اسلم آزاد
سلسلہ رونے کا صدیوں سے چلا آتا ہے
کوئی آنسو مری پلکوں پہ ٹھہرتا ہی نہیں
اسلم آزاد
ہم بھی اسلمؔ اسی گمان میں ہیں
ہم نے بھی کوئی زندگی جی تھی
اسلم عمادی

