اڑتے لمحوں کے بھنور میں کوئی پھنستا ہی نہیں
اس سمندر میں کوئی تیرنے والا ہی نہیں
سالہا سال سے ویران ہیں دل کی گلیاں
ایک مدت سے کوئی اس طرف آیا ہی نہیں
آنکھ کے غار میں ہیں سیکڑوں سڑتی لاشیں
جھانک کر ان میں کسی نے کبھی دیکھا ہی نہیں
دور تک پھیل گئی ٹوٹتے لمحوں کی خلیج
وقت کا سایہ مرے سر سے اترتا ہی نہیں
سلسلہ رونے کا صدیوں سے چلا آتا ہے
کوئی آنسو مری پلکوں پہ ٹھہرتا ہی نہیں
جلتے آکاش کی ڈھلوان پہ سورج کا وجود
اک پگھلتا ہوا لاوا ہے کہ بجھتا ہی نہیں
غزل
اڑتے لمحوں کے بھنور میں کوئی پھنستا ہی نہیں
اسلم آزاد