EN हिंदी
2 لائنیں شیری شیاری | شیح شیری

2 لائنیں شیری

22761 شیر

ہماری جیت ہوئی ہے کہ دونوں ہارے ہیں
بچھڑ کے ہم نے کئی رات دن گزارے ہیں

اسلم کولسری




عید کا دن ہے سو کمرے میں پڑا ہوں اسلمؔ
اپنے دروازے کو باہر سے مقفل کر کے

اسلم کولسری




جانے کس لمحۂ وحشی کی طلب ہے کہ فلک
دیکھنا چاہے مرے شہر کو جنگل کر کے

اسلم کولسری




جب میں اس کے گاؤں سے باہر نکلا تھا
ہر رستے نے میرا رستہ روکا تھا

اسلم کولسری




کانٹے سے بھی نچوڑ لی غیروں نے بوئے گل
یاروں نے بوئے گل سے بھی کانٹا بنا دیا

اسلم کولسری




قریب آ کے بھی اک شخص ہو سکا نہ مرا
یہی ہے میری حقیقت یہی فسانہ مرا

اسلم کولسری




شہر میں آ کر پڑھنے والے بھول گئے
کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا

اسلم کولسری