وہ شب غم جو کم اندھیری تھی
وہ بھی میری انا کی سبکی تھی
غم مری زندگی میں ٹوٹ گرا
ورنہ یہ شور دار ندی تھی
دن بھی شب رنگ بن گئے اپنے
پہلے سورج سے آنکھ ملتی تھی
کیا مقالات عاشقی پڑھتے
بزم میں ہم نے آہ کھینچی تھی
جل رہے تھے ہرے بھرے جنگل
ایسی بے وقت آگ پھیلی تھی
میں کھڑا تھا اکھڑتے پتھر پر
وہ اسی طرح شانت لگتی تھی
اس لیے بے کراں میں جا پہنچے
دور تک رہ گزر اندھیری تھی
اس لیے شہر میں رہے بیتاب
تاب کاری ہوا میں پھیلی تھی
چند روز اور منتظر رہتے
ویسے مل کر بھی جان دینی تھی
شب رنج و محن کا ذکر نہ کر
اس کی ہر اک گھڑی نشیلی تھی
ہم بھی اسلمؔ اسی گمان میں ہیں
ہم نے بھی کوئی زندگی جی تھی
غزل
وہ شب غم جو کم اندھیری تھی
اسلم عمادی